دعا

بِسْمِ اللّہِ الرّحمٰنِ الرّحیمِ

و صلی اللّہ علیک یا ولی العصر علیہ السلام ادرکنا


دعا

بےچارگی کی وہ منزل جہاں قدرت وطاقت جواب دے جائے کوئی حل نظر نہ آئے ، کوئی کوشش فائدہ مند ثابت نہ ہو، مایوسیوں کے اندھیرے پھیلنے لگیں تو ایسے میں دعا ہی امید کی کرن بن کہ سامنے آتی ہے۔ جب دعاکی حالت میں اپنے رب کے حضور سراپا التجا ہوتاہے اور اس کی آنکھوں سے گرتے ہوئے آنسواس کے فقیر ہونے کا ثبوت دیتے ہیں تو وہ کیفیت قبولیت کے قریب تر ہوتی ہے۔اس بے چینی و پریشانی کی حالت میں انسان خود کو تمام قوتوں کے مالک کے قریب محسوس کرتاہےاور پھر اس کا احساس تنہائی بھی ختم ہوجاتاہےاور وہ ناتوانیوںکو امید و رجا کی قوتوں میں بدلتامحسوس کرتاہے، اس کے دل و دماغ کیلے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ اگردنیاوی عارضی سہارے اس کی مشکلات کو حل نہیں کرسکے تو کیاہوا، خدا کی ذات کاسہارا توموجود ہے، جس کے قبضہ قدرت میں کائنات کی ہرچیزہے۔جب یہی سہارا اس کے اندر امید پیدا کر دیتا ہے تو اس کی بے چینی و اضطراب کی کیفیت سکون ،اطمینان و راحت میں بدل جاتی ہے۔ (الرعد۲۸) انبیا علیہم السلام جیسی عظیم المرتبت معصوم ہستیاںبھی جب مشکلات و مصائب میں گھر جاتیں تو وہ بھی خدا کی ذات کا سہارا دعاکے ذریعے سے لیتیں۔حضرت آدم علیہ السلام کی دعا: ’’پرودگار! ہم نے اپنے آپ پر ظلم کیااور اگر تو نے ہمیں معاف نہ کیا اور ہم پر رحم نہ کیا تو ہم نقصان اٹھانے والوں میں سے ہو جائیں گے‘‘۔ (اعراف ۲۳)حضرت ایوب علیہ السلام کی دعا: ’’اور جب ایوب علیہ السلام نے اپنے رب کو ندا دی کہا: مجھے تکلیف ہو رہی ہے اورتوا رحمالرحمین ہے‘‘۔(انبیاء ۸۳)حضرت یونس علیہ السلام کی دعا: ’’تیرے سواکو ئی معبود نہیںتوپاک ہے۔ یقیناْ میں ہی زیادتی کرنے والوں میں سے ہوں‘‘ (انبیا ء ۸۷)

قبولیت دعا کی شرائط:

گناہوں سے توبہ،قلب و روح کی پاکیزگی اور اصلاح نفس کی کوشش ،غصبی مال اور حرام غذا سے اجتناب ، امرباالمعرف و نہی عن المنکر اور مسلسل عمل و کوشش۔

امام زین العابدین علیہ السلام نے دعا کے بارے میں فرمایا:

’’یااللہ! اگر تیرا حکم نہ ہوتا کہ مجھ سے مانگو، دعا کرو تو میں کبھی بھی دعا نہ کرتا بلکہ اسے تیری مشیت کے خلاف گردانتا، میں دعا کرتا ہوں اس لیے کہ یہ دعا تیرے نزدیک پسندیدہ اور محبوب امرہے‘‘۔

قید تنہائی کیا میری وجہ سے؟


اب ایک نظر اس ہستی کی طرف کیجئے کہ جس دن گھنٹوں کے فرق سے درجات بلند سے بلند تر ہو رہے تھے، اس دن جس کا امتحان ختم نہیں بلکہ شروع ہونا تھا۔ امام سجاد علیہ السلام کی مصیبت کو بیان کرنے سے الفاظ قاصر ہیں۔ کہ تمام تر مصائب کے ساتھ زندہ رہ جانا۔ ہر مصیبت ، ہروار، ہر زخم ، تازیانے اور العتش کی تمام صداووں اور تمام ساتھیوں کو کھو دینے کا غم دل میں سموئے ۴۰ سال زندہ رہنا۔ یقیناً عقلیں حیران اور زبانیں گنگ ہیں۔


اب اگر ہم اپنی نظر اس ہستی کی طرف کریں، جو تقریباً ۱۲۰۰ سال سے، اکیلے ان مصائب کو دل میںلئے زندہ ہیں، اس ہستی کی قید تنھائی کس قدر مشکل ہے؟جس نے کربلا سنی نہیں ہے، بلکہ کامل علم امانت کے طفیل دیکھی ہے۔ جو اپنے جدامجد سے فرماتے ہیں کہ میں ساری زندگی صبح و شام آپ کا غم منائوں گا اور آنسوں کے بدلے خون بہاوں گا۔ اس ہستی کی مصیبت کیسی ہے جو ۱۲۰۰ سال سے اِذنِ ظہور کی منتظر ہے اور ھَلْ مِنْ نَاصِرٍیَّنْصُرْنَا کی صدا پر لبیک کہنے کے لئے بے تاب لیے، جو دروازہ گرنے سے لے کر شش ماہ کا گلہ کٹنے تک ہر ظلم کا بدلہ لینے کے لئے بے چین ہے، مگر اذن ظھور میسر نہیں ہے۔


آج سوال کرنے کا دن لیے کہ کیا میں ان وجوہات میں سے ایک وجہ تو نہیں کہ جن کی بناء پر اب تک اذن ظھور عطا نہیں ہوا؟ جب ہر پیر اور جمعرات کو ہمارے اعمال امام علیہ السلام کی خدمت میں پیش کئے جاتے ہیں، تو کیا میرے اعمال امام علیہ السلام کے دل حزیں کے لئے مزید اذیت کا سامان فراہم تو نہیں کرتے؟ کیا ہی اچھا ہو کہ میں اپنے کردار کو ایسا بنا لوں، کہ امام علیہ السلام جب میرے اعمال کی طرف توجہ کریں تو میری ذات ان کے لئے باعث اذیت نہیں بلکہ غموں کا مداویٰ ثابت ہو۔کس قدر نیک بختی ہو میرے لئے کہ جب کبھی امام علیہ السلام اپنی پاک توجہ مجھ پر ڈالیں تو انھیں ایک دوست نظر آئے، اور مولیٰ علیہ السلام ایک لحظہ فقط ایک مختصر سے لمحے کے لئے مسکرا دیا کریں، اے کاش ایسا ہو، مگر افسوس۔۔۔۔۔۔۔