معرفت امام زمان علیہ السلام

بِسْمِ اللّہِ الرّحمٰنِ الرّحیمِ

و صلی اللّہ علیک یا ولی العصر علیہ السلام ادرکنا


معرفت امام زمان علیہ السلام

قَالَ رَسُوْل اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم:

مَنْ مَاتَ وَلَمْ یَعْرِفْ اِمَامَ زَمَانِهِ مَاتَ مَیْتَةً جَاہِلِیَّة (مستدرک ج۱۸ ص ۱۸۷)

جو اپنے وقت کے امام کی معرفت حاصل کیے بغیر اس دنیا سے چلا جائے اس کی موت جاہلیت کی موت ہو گی"۔



امام زمانہ عجل اللہ فرجہٗ الشریف کے ظہور سے قبل فتنہ و فساد، بے سروسامانی، نا امنی، ظلم و استبداد، غارتگری، قتل و کشتار تمام عالم کو محیط ہو گا اور زمین ظلم و ستم سے لبریز ہو گی۔ قوم وملت کے درمیان جان و مال بے وقعت، راستے غیرمحفوظ، خوف و دہشت ہر انسان کے دل میں بیٹھی ہو گی۔ جان لیوا لاعلاج امراض، انواع و اقسام کے ہتھیار عام ہوں گے۔ کھانے پینے کی اشیاء کی کمی، مہنگائی اور قحط سے لوگ مفلوج، باران رحمت کے فقدان سے زمین اپنی کوکھ سے فصلوں کو جنم دینا بند کر دے گی۔

ایسی مشکلات میں انسان ناامیدی کا شکار ہو جائے گا۔ اس وقت موت اللہ کا بہترین ہدیہ اور لوگوں کی انتہائی آرزو ہو گی۔ ان حالات میں کوئی پارٹی، کوئی نظام نہیں ہو گا جو اس بلبلاتی دنیا کو ستمگروں اور ظلم طاقتوروں کے خونی پنجوں سے نجات کی امید دلائے۔ انسانیت کی نجات اور فلاح کے سارے دعویدار جھوٹے ثابت ہو چکے ہوں گے۔ ایسے میں بنی نوع بشر اپنے قلب و جگر کی گہرائیوں سے ایک مصلح غیبی کی آمد کی منتظر ہو گی۔ خداوندعالم اپنے لطف و رحمت سے مہدی ؑ موعود کو مدتوں غیبت و انتظار کے بعد بشریت کی نجات کے لیے پردہ غیبت سے اذن ظہور عطا فرمائے گا۔


:اس امام کی معرفت کس قدر ضروری ہے


جس کی معرفت جہالت و شرک کی موت سے چھٹکارے کا باعث ہو (اصول کافی ج ۱ ص ۳۷۱)


جس کے ذریعے نجات بشریت کا وعدہ پورا ہو گا (اصول کافی ج ۱ ص ۳۳۸)


جس کے وجود مبارک سے یہ زمین و آسمان قائم ہیں(اعلام الوری ص ۳۸۴)


جس کی برکت سے آسمان سے رحمت نازل ہوتی اور زمین سے روزی اُگتی ہے۔


پس ہمیں چاہیے کہ ہم ان کی معرفت حاصل کریں ان کی اطاعت کے لیے آمادہ ہو جائیں۔ اپنے امور ان کے سپرد کر دیں۔ ان کے سامنے تسلیم ہو جائیں ان کی مرضی پر اپنی خواہشات قربان کریں۔ کیونکہ نجات کا بس یہی ایک اور فقط ایک راستہ ہے۔