نماز صبح و سحر خیزی

بِسْمِ اللّہِ الرّحمٰنِ الرّحیمِ

و صلی اللّہ علیک یا ولی العصر علیہ السلام ادرکنا


نمازِ فجر و سحر خیزی


نماز، پروردگارِ عالم کی طرف توجہ، اس کی عبادت اور اس کے سامنے تضرع و زاری کا بہترین ذریعہ ہے۔ نماز ہی وہ عبادت ہے جو انسانی رُوح میں سے شرک کی نجاست اور دیگر بہت سے گناہوں کو دور کرتی ہے اور قلب ِ انسانی کو اپنے مالک حقیقی کی طرف متوجہ کرتی ہے۔ سورۃ الفجر میں فجر کی اہمیت خداوند عالم نے اور بھی بڑھا دی ہے اور فجر کے وقت کی قسم کھائی ہے۔ نماز فجر کی اہمیت دیگر نمازوں میں اس طرح ہے جس طرح سر کی اہمیت جسم میں ہے۔ جس کی فجر کی نماز قضا ہوتی ہے اس کے چہرے سے نور چھین لیا جاتا ہے ۔ اسی لیے شیطان بھی اپنے لشکر لے کر فجر کے وقت انسان کو لوریاں سنانے آجاتا ہے اور کہتا ہے کہ ابھی بہت وقت ہے تھوڑا سا اور سولے۔ اس طرح نماز یا تو اول وقت سے رہ جاتی ہے یا پھر قضا ہوجاتی ہے۔ اس شیطانی فریب سے نکلنے کے لیے امام زمان علیہ السلام کا فرمان سنیئے: ’’ملعون ہے وہ شخص جو نمازِ صبح اس وقت ادا کرے جب آسمان پر سے ستارے غائب ہوچکے ہوں‘‘۔ اول وقت پر ادائیگی ٔ نمازِ فجر، خداوندمتعال کی توفیق کے بغیر ممکن نہیں اور یہ کام صرف وہی کرسکتا ہے جو خداوندمتعال کی محبت اپنے دل میں رکھتا ہو اور پروردگارِ عالم کی کبریائی کا اعتراف قلب کی گہرائیوں سے کرتا ہو۔


حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہے: ’’جو شخص صبح صادق سے لے کر سورج نکلنے تک تعقیبات میں مشغول رہے تو خدا اسے جہنم کی آگ سے بچائے رکھے گا‘‘۔ نیز فرمایا:’’صبح صادق سے سورج نکلنے تک مصروف تعقیبات رہنے والے کیلئے ایک حج کا ثواب لکھا جاتا ہے‘‘۔ حضرت لقمان ؑ کبھی نمازِ فجر کے بعد طلوعِ آفتاب تک نہیں سوتے تھے جو واقعاً ہمارے لیے نمونہ ٔ ہے کہ ایک غیر نبی کے اس عمل کی عظمت کے باعث خداوند عالم نے ایسا مرتبہ عطا کیا کہ اس کا ذکر اپنے کلام بلاغت میں لے آیا۔


سحرخیزی صحت کے لیے بے حد مفید ہے جو لوگ سحرخیزی سے محروم رہتے ہیں وہ زندگی میں سست اور پژمردہ ہی رہتے ہیں جبکہ سحرخیز شخص تروتازہ اور خوش مزاج رہتا ہے۔ صبح کی ہوا میں کسی قسم کی کثافت اور آلودگی نہیں ہوتی۔ پودوں نے تازہ تازہ آکسیجن پیدا کرنا شروع کی ہوتی ہے جو قلب و دماغ کو مفرح اور شاد کام کردیتی ہے۔ اس ہوا میں چہل قدمی و ورزش سونے پر سہاگہ کے مترادف ہے۔ کسی مفکر کا قول ہے کہ: ’’اگر خدا انبیاء ؑ نہ بھی بھیجتا تو طلوع آفتاب کا وقت میرے ایمان لے آنے کے لیے کافی تھا‘‘۔